تحریر: مولانا امداد علی گھلو
حوزہ نیوز ایجنسی| آج کے دور میں جنگ کی نوعیت بدل چکی ہے۔ گولیوں اور بموں سے بڑھ کر ذہنوں اور دلوں پر قبضہ کرنا دشمن کے لیے زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی نے جہاد تبیین کو آج کے دور کا سب سے اہم اور امید افزا ہتھیار قرار دیا ہے۔ ان کا فرمان ہے کہ جہادِ زبان بعض اوقات جہادِ جان سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور یہی وہ جہاد ہے جس کی بنیاد حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شخصیت سے جڑی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کی کہ حضرت زہراؑ ان افراد سے محبت کرتی ہیں جو جہادِ تبیین کے راستے پر چلتے ہیں، کیونکہ ان کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو حقائق کو واضح کرنا اور روشنی پھیلانا تھا۔ آج کے دور میں یہ جہاد تبیین دشمن کے اس "سازشی مثلث" کے خلاف ہے جو خوف پیدا کرنے، اختلاف ڈالنے اور مایوسی پھیلانے پر مبنی ہے۔
یہ "سازشی تکون" یعنی خوف پھیلانا، اختلاف پیدا کرنا اور ناامیدی پھیلانا، دشمن کی وہ خطرناک اسٹریٹیجی ہے جس کے ذریعے وہ ایک اسلامی معاشرے کو اندر سے کمزور کرنا چاہتا ہے۔ دشمن کی یہ اسٹریٹیجی نہ صرف نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے بلکہ یہ انسانی ارادے کو جکڑ کر اسے ایک کٹھ پتلی بنا دیتی ہے، جو اپنے دشمن کے اشاروں پر ناچتا ہے۔
دشمن کا پہلا ہتھیار خوف کے ذریعے سوچنے کی صلاحیت ختم کرنا ہے، جو انسانی ذہن کو مفلوج کرنے کا سب سے خطرناک ذریعہ ہے۔ جب کوئی معاشرہ یا فرد خوفزدہ ہو جاتا ہے تو اس کی سوچنے، سمجھنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ خوفزدہ شخص اپنی قوّت اور وسائل کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے اور یہی دشمن کی سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے۔
آج کے میڈیا کا ایک بڑا حصہ اسی خوف کے ذریعے سوچنے کی صلاحیت کو ختم کرنے میں مصروف ہے۔ جعلی خبروں کی بھرمار، جیسے ایران پر حملے کی دھمکیاں، ایران کی دفاعی کمزوریوں کی افواہیں اور دشمن کی معمولی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، سب اسی مقصد کے تحت کیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں ایک "مرگِ عصبی" کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، یعنی ایک زندہ معاشرہ اپنی طاقت کو استعمال کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
دشمن کی دوسری اسٹریٹیجی قوّت کا اندرونی زوال ہے، جو کسی بھی معاشرے کی طاقت کو اندر سے ختم کر دیتی ہے۔ قرآن کریم میں سورۃ انفال کی آیت 46 میں واضح طور پر آیا ہے: وَ لَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ؛ اور آپس میں نزاع نہ کرو ورنہ ناکام رہو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بھی اس آیت کی روشنی میں تاکید کی کہ جب اختلاف پیدا ہوتا ہے تو قوم اپنی عزت اور قوّت کھو دیتی ہے۔ آج کے دور میں دشمن اسی اختلاف کو ہوا دینے کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہا ہے۔ حکومت اور عوام کے درمیان فاصلے پیدا کرنا، اداروں کے درمیان بداعتمادی پھیلانا اور قوم کے رہنماؤں کو آپس میں دست و گریبان کرنا دشمن کے وہ حربے ہیں جن کے ذریعے وہ معاشرتی اور قومی وحدت کو نقصان پہنچاتا ہے۔
سازشی مثلث کا تیسرا پہلو امید کا خاتمہ اور شکست کا آغاز ہے، جو کسی بھی قوم کی طاقت کو ختم کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔ دشمن جانتا ہے کہ جب کسی قوم کے دل میں مایوسی پیدا ہو جائے تو وہ خود بخود اپنی کوششوں کو ترک کر دیتی ہے، چاہے فتح کا راستہ ہی کیوں نہ قریب ہو۔ مایوسی کی فضا میں فرد یا معاشرہ اپنی کامیابیوں کو نظر انداز کرتا ہے، مشکلات کو بڑا اور دشمن کو ناقابل شکست سمجھنے لگتا ہے۔
آج، دشمن یہی حربہ استعمال کر رہا ہے۔ ایران کی سائنسی، عسکری اور بین الاقوامی کامیابیوں کو نظر انداز کرنا یا کم اہمیت دینا اور اقتصادی مشکلات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اسی اسٹریٹیجی کا حصہ ہے۔ جب معاشرہ خود کو بے بس اور ناکام تصور کرنے لگے تو دشمن کی کوششیں کامیاب ہو جاتی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ آج کی جنگ میدانِ جنگ میں نہیں، بلکہ ذہنوں اور دلوں میں لڑی جا رہی ہے۔ دشمن کی پوری کوشش ہے کہ افراد کے ذہنوں کو قابو میں لے کر ان کی ارادے کی طاقت کو ختم کر دے۔ یہ جنگِ شناختی کا وہ خطرناک پہلو ہے جس کے ذریعے افراد کو غیر محسوس طریقے سے دشمن کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنا دیا جاتا ہے۔
جب ذہن خوف، اختلاف اور مایوسی کا شکار ہو جائے تو وہ خود بخود دشمن کے منصوبوں کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی نے جہادِ تبیین کو ایک اہم ترین فریضہ قرار دیا، تاکہ اس سازشی مثلث کے اثرات کو ختم کیا جا سکے۔
جہادِ تبیین، روشنی اور امید کا راستہ ہے۔ جہاد تبیین کا مقصد دشمن کے منصوبوں کو بے نقاب کرنا اور معاشرے میں شعور، ہمت اور استقامت پیدا کرنا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمیں منطق کی روشنی سے عوام کو آگاہ کرنا ہوگا۔ خوف کا مقابلہ شجاعت سے، اختلاف کا علاج وحدت سے اور مایوسی کو امید سے شکست دی جا سکتی ہے۔
یہ جہاد محض ایک فریضہ نہیں، بلکہ ایک ذمہ داری ہے جو ہر فرد پر عائد ہوتی ہے۔ ان افراد سے زیادہ خطرناک کوئی نہیں جو اپنی لاعلمی یا نیک نیتی میں دشمن کے اس سازشی تکون کو تقویت دیتے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہر سطح پر، ہر فورم پر اور ہر موقع پر اس جہادِ تبیین کو اپنا شعار بنائیں اور دشمن کے ان ہتھکنڈوں کو ناکام بنائیں۔
سازشی مثلث کی یہ اسٹریٹیجی، جس کا مقصد خوف، اختلاف اور مایوسی پھیلانا ہے، صرف دشمن کی چالاکی کا مظہر نہیں، بلکہ ہماری غفلت کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔ اگر ہم جہاد تبیین کے ذریعے ان حربوں کا جواب نہ دے سکے تو یہ مثلث ہماری طاقت کو اندر سے ختم کر سکتی ہے۔
جہادِ تبیین نہ صرف دشمن کے منصوبوں کو ناکام بنا سکتا ہے، بلکہ یہ ہمارے معاشرے کو ایک مضبوط اور متحد قوم میں تبدیل کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ آج، حضرت زہراؑ کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے، حقائق کو روشنی میں لانے اور دشمن کی سازشوں کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی جہاد ہماری فتح کا راستہ اور دشمن کی ناکامی کا سبب بنے گا۔
آپ کا تبصرہ